وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں: مجاہد کی ماں۔ جنین کیمپ سے فلسطین کی آواز

وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں: مجاہد کی ماں جنین کیمپ 

فلسطین


 West Bank, Palestine


وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں۔ کیا یہ خود وہ نہیں ہیں جنہوں نے دہشت گردی پیدا


 کی؟ یہ الفاظ ہیں ایک فلسطینی


 شہید مجاہد فاروق کی والدہ کے۔


وہ کہتی ہیں کہ قابض فورسز ریڈ کے نام پر فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں


 گھر میں گھس کر میرے بیٹے پر تشدد کیا گیا اسکی عزت نفس مجروح کی گئی اس


 نے اپنے سامنے اپنے دوستوں کو شہید ہوتے دیکھا ۔تواسنے اپنے حق اور اپنی


 آزادی کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا۔


یہ الفاظ جنین مہاجر کیمپ میں ہر مجاہد کی ماں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔



جنین مہاجر کیمپ ہے کیا؟


Palestine 

جنین فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں واقع ایک شہر ہےیہ وہ شہر ہے جسے


 1953 میں مہاجر کیمپ بنادیا گیا۔ 1948 کی فلسطین جنگ میں صیہونی فوجوں نے


 فلسطینیوں کو جبرا بزور اسلحہ انکے آبائی علاقوں سے بےدخل کردیا تھا ان بے


 دخل مظلوم فلسطینیوں کو 1953 میں قائم جنین مہاجر کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔


جنین کیمپ فلسطینی مجاہدوں کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے فلسطینی اس شہر کو


 "شہیدوں کادارالحکومت"جبکہ اسرائیلی اسے "بھڑوں کا چھتہ "کہتے ہیں۔یہ


 کیمپ مختلف واقعات کی وجہ سے مشہور ہے چاہے وہ 2002 میں ہونے والی جنین


 جنگ ہو یا 2022 میں الجزیرہ Al-Jazeera نیٹ ورک کی صحافی شہرین کا ٹارگٹڈ


 قتل ہو۔


 جنین اور نیبلس سب سے بڑی آزادانسانوں کی جیلیں ہیں جہاں وہ ا پنی ہی زمین


 میں اپنے ہی گھر میں قید ہیں جنین کےرہائشی دوسرے علاقوں سے زمینی رابطہ


 نہیں رکھ سکتے۔جنین میں زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات نہ کافی ہیں اور


 بےروز گاری بھی ہے اور بچی ہوئی کسر صہیونیوں کی ریڈ پورا کر دیتی ہیں کیمپ


 فلسطین نیشنل اتھارٹی کے زیر کنٹرول ہے اور یہ کنٹرول برائے نام ہے کیوں کہ


 اتھارٹی جنین سے کافی فاصلے پر ہےلہذا اس کا کنٹرول کمزورہے۔1967 کی جنگ


 میں عرب فوجوں کی شکست کے بعد صیہونیوں نے مغربی کنارےسمیت جنین کیمپ


 پر قبضہ کر لیا۔1980سے1990 کی دہائی میں جنین کے شہریوں نے صیہونی مظالم


 کے خلاف پہلی بغاوت کی جس میں کئی فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔صیہونی


 فوجوں نے کیمپ کو نشانہ بنایا اور ریڈکے نام پر خوب ظلم کیا اوسلو معاہدہ پر


 دستخط کے بعد بغاوت روک دی گئی اور کیمپ کا کنٹرول فلسطین نیشنل اتھارٹی کے


 حوالے کر دیا گیا


Freedom Fighter


دو ہزار  میں فلسطینیوں نے ایک دفعہ پھر صہیونی حکومت کے خلاف بغاوت کا


 اعلان کردیا۔اپریل 2002 میں خودکش دھماکوں کا ایک سلسلہ جاری ہوا،جسے کے


 بعد صیہونی فوجیں کیمپ میں داخل کر دی گئیں۔صہیونیوں نے آپریشن ڈیفینس شیلڈ


 شروع کر دیا جس نے جنین جنگ کی راہ ہموار کی۔ صہیونی فوج کیمپ کو دہشت


 گردی کا سرگرم علاقہ قرار دیتی تھی اور امدادی کارکنوں اور صحافیوں کے کیمپ


 میں داخل ہونے پر پابندی لگادی گئی تھی۔یہ جنگ 10 دن تک جاری رہی1 اپریل


 سے 11اپریل تک اور18 اپریل کو اسرائیل نے اپنی فوجیں کیمپ سی نکالنی شروع


 کر دیں اس جنگ میں400 کے قریب گھر تباہ ہوئے اور سینکڑوں گھر مکمل طور


 پر ملیامیٹ کردئیے گئےbbcکی رپورٹ کے مطابق کیمپ کا 10%حصہ اسرائیلی


 اسلحے سے لیس بلڈوزرز سے مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر کردیا گیا UNOکی


 رپوٹ کے مطابق 52 فلسطینی اور 23صہیونی فوجی ہلاک ہوئے تاہم فلسطینیوں کا


 کہنا ہے کہ صہیونی فوج نے500 کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا4000 فلسطینی


 گھروں کے مکمل تباہ ہو جانے کی وجہ سے بے گھر ہو گئے اسرائیلی ہاوسنگ


 منسٹر نے دوبارہ گھر بنا کر دینے کی پیش کش کی جسے فلسطینیوں نے قبول نہیں


 کیا۔



 جنین کیمپ فلسطین


 دو ہزار پانچ میں کیمپ کو کچھ اسطرح دوبارہ تعمیر کیا کہ اب صہیونی فورسز


 اپنے ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بہت سہولت سے کیمپ میں داخل ہو


 سکتی تھیں اس امر نے جنین کیمپ کے ماحول میں مزید کشیدگی پیدا کردی۔صیہونی


 فورسز ریڈ کے نام پر مظلوم شہریوں کو قتل کرنے سے بھی نہیں کتراتیں۔ وہ


 عورتوں بچوں کو بھی گرفتار کر کے لے جاتے ہیں اب تک تقریبا 10،000 سے


 پندرہ ہزار تک فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں مشقت اور تشدد سے بھرپور قید کاٹ


 رہےہیں جن میں خواتین اور بچے بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔عالمی میڈیا کی


 رپورٹس کے مطابق 2022میں سب سے زیادہ فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا 2002


 سے لے کر 2022 تک یہ سب سے زیادہ خونی سال تھا 


صہیونی فورسز دوران ریڈ خاندانوں کو تشدد اور بربریت کا نشانہ بناتی ہیں یہ ہی


 وجہ ہے کہ جنین اور نیبلس شہر کے نوجوان اپنی زمین اور اپنے پیاروں کی زندگی


 اور عزت کے لیے ہتھیار اٹھا کر میدان جنگ میں اتر آئے ہیں



''  جینین بریگیڈ   ''  شیر کا اڈہ 


 جنین برگیڈاور نیبلس میں شیروں کی غارمجاہدین کے گروہ صہیونیوں کے خلاف


 سرگرم عمل ہیں فلسطین اسلامی جہاد


 کا القدس برگیڈ ،الفتح کا الاقصی شہید برگیڈ اور حماس کا عزالدین القسام برگیڈ جنین


 کیمپ میں نمایاں ہیں یہ مجاہدین قابض فورسز کے خلاف متحرک ہیں اور اپنے وطن


 کی آزادی اپنے پیاروں کی جان ،عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے


 نزرانے پیش کردیتے ہیں۔وہ اپنے خوابوں کو قربان کر دیتے ہیں ایک عام زندگی


 گزارنے کا خواب، ایک ڈاکٹر یا انجنئیر بن کر ملک وقوم کی خدمت کرنے کا خواب


 ،اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پرسکون زندگی گزارنے کاخواب۔یہ سب وہ خواب ہیں


 جن کی تعبیر کے لیے فلسطینی صہیونیوں کے خلاف اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں


 فلسطینیوں کو انکی ہی سرزمین پر مہاجر بنا دیا گیا ہے وہ اپنے ہی گھروں میں


 محصور ہو کر رہ گئے ہیں7 اکتوبر سے شروع ہونے والی حماس-اسرائیل جنگ


 میں کئی فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقوں میں گرفتار کیا گیاہے یہودی سیٹلرز اور


 صہیونی فوجوں نے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی زندگی حرام کر رکھی ہے


 وہ انہیں ازیتیں دیتے ہیں تاکہ یہ تنگ آکر یہ زمین چھوڑ کر چلے جایئں جہاں اب


 تک غزہ تباہ کیا گیا ہے وہی جنین کیمپ میں بھی حملے جاری ہیں مجاہدین انکا ڈٹ


 کر مقابلہ کر رہے ہیں جنین برگیڈ کے مجاہدوں کا کہنا ہے کہ وہ القسام برگیڈ سے


 الگ نہیں ان سب کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے "حریت"وہ سب آپس میں رابطے


 میں ہوتے ہیں اور معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔





ایک انٹرویو میں جنین برگیڈ کے مجاہد نے بتایا وہ کیسی زندگی گزارنا چاہتا تھا اور


 اسے یہ سب کیوں کرنا پڑرہا ہے اگر وہ اسلحہ نہ اٹھائیں تو انکے گھروں میں


 عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ ہو صہیونی فوجیں کسی بھی وقت کیمپ میں آکر


 ہمیں یرغمال بنالیں ہم انہیں اسی زبان میں سمجھاتے ہیں جو زبان یہ بہتر سمجھتے


 ہیں۔


اس نے بتایا کہ کیمپ میں ہر قدم پر آپ کو شہید کا گھر ملے گا ابھی کچھ پل پہلے


 ہمارا ایک ساتھی ہمارے ساتھ ہے اور آنکھ چھپکتے ہی وہ شہید ہو چکا ہوتا ہے


 کسی کا باپ شہید ہوتا ہے تو کسی کا بھائی ،کزن یا دوست۔مائیں اپبے بچوں کو


 شہید ہوتے دیکھتی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں عزت اور وقار کے ساتھ شہادت کا


 جام پیا اور غلامی کو نامنظور کرتے ہوئے قابض اور ظالم صہیونیوں کے خلاف اٹھ


 کھڑے ہوئے۔





انٹرنیشنل میڈیا اپنی ازلی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجاہدین کو دہشت گرد کہتا


 ہے اور انکی آزادی اور حفاظت کی جدوجہدکو دہشت گردی سے منسوب کرتا ہے


 اسرائیل اپنے حمایتیوں کے ساتھ مل کر فلسطین اور فلسطینیوں کی جدوجہد کو


 کچلنے کےلیے ہر حربہ آزمارہاہے لیکن فلسطینی 75سالوں سے اس شیطان کو یہ


 دیکھا تے آرہے ہیں کہ یہ انکی سرزمین ہے وہ نہ تو انکو ختم کرسکتا ہے اورنہ


 ہی یہاں سے نکال سکتا ہے وہ صہیونیوں کے تمام مظالم کا جواں مردی سے مقابلہ


 کرتے ہوئے اسے بتارہے ہیں کہ" تم ہمیں دفناتے ہو لیکن مت بولو ہم بیج ہیں"ہم


 کبھی نہیں مٹیں گے فلسطین ہمارا ہے اور ہم اس کے ہیں۔



 جنین کیمپ فلسطین


  پی پی ایس نے کہا کہ  7اکتوبر سے اب تک گرفتار کیے گئے افراد کی کل تعداد


 تین ہزارتین سو پچیس سے زیادہ ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں 7 اکتوبر سے اب 


 زائد بچوں سمیت کم از کم 29,606+ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ 70,043+ سے


 .زائد زخمی ہو چکے ہیں




ADAM   MARTYR



جنگ شروع ہونے کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے چھاپے روزانہ


 کی بنیاد پر ہوتے رہتے ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کی سوسائٹی (پی پی ایس) اور قیدیوں


 کے امور کی اتھارٹی کے مطابق اسرائیلی فورسز نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران


 مقبوضہ مغربی کنارے سے 35 فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں ایک 8  سالہ بچہ


 بھی شامل ہے۔



Adam  Martyr


FAQs



Tags


Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.