نسل کشی یا دفاع کا حق " : فلسطینی جینوسائیڈ "

 نسل کشی یا دفاع کا حق " :  فلسطینی جینوسائیڈ "



غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل جس کا پوری دنیا سے رابطہ منطقع ہے جہاں 23 لاکھ


 کی آبادی میں سے 28 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں-68ہزار سے زائد زحمی


 ہیں 25ہزار سے زائد بچے اپنے دونوں یا ایک والدین کو کھو چکے ہیں۔جہاں لوگ


 اپنی جان بچانے کے لیے کبھی غزہ کے ایک کنارے جاتے ہیں اور کبھی


 دوسرےکنارے،یہاں تک  کہ وہ کسی بمباری کا شکار ہو کر شہید ہو جاتے ہیں۔بچ


 جانے والے بھوک پیاس کا سامناکررہے ہیں۔کیا یہ کھلم کھلا نسل کشی نہیں؟آخر یہ


 سیلف ڈیفینس کیسے ہوسکتا ہے؟ غزہ کو ایک  ہتھیاروں کی ٹیسٹ لیبارٹری


 بنارکھا ہے۔ عالمی عدالت بھی اسرائیل کو اس جنگی جرم کے ارتکاب سے باز نہ رکھ


 سکی۔



نسل کشی کیا ہے؟


برٹانیکا کےمطابق نسل کشی سے مراد لوگوں کے کسی گروہ کو انکی نسل ،قومیت


 ،مزہب  یا نسل کی وجہ سے جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے تباہ کرناہے ۔یہ یونانی


 لفظ جینوس(نسل،قبیلہ یاقوم) اور لاطینی لفظ(قتل) سے ماخوز ہے۔


اسکی تعریف کی مزیدوضاخت دیگر سکالرز یوں کرتے ہیں , پیٹرک وولف کے مطابق


 مقامی آبادی  کی نسل کشی کا امکان حاص طور پر آبادکار نو آبادیات کے معاملات میں


 ہوتا ہے۔ جبکہ کچھ سکالرز کا یہ کہنا ہے کہ آبادکار نو آبادیات فطری طور پر نسل کشی


 ہے۔


نسل کشی کا تصور سب سے پہلے تصور 1944  میں ایک پولش قانوندان اور وکیل


 رافیل لیمکن نے پیش کیا اسکے مطابق نوآبادکاری اپنےاندر ہی نسل کشی ہے لیکمن


 نے اسکے دو مراحل بیان کیے پہلا،جس میں تشدد ،قتل وغارت کے زریعے مقامی


 لوگوں کے طرز زندگی کو مکمل تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ دوسرا ،وہاں دوسرے آباد ہونے


 والے لوگوں کے طرز زندگی کو مقامیوں پر جبرا تھونپ دیا جاتا ہے۔یہ وہ مراحل ہیں


 جو نسل کشی کے لیےامریکہ ، افریقہ ،ایشیاء اور آسٹریلیا میں مقامیوں کے خلاف


 استعمال کیے گئے۔ لیمکن  نے جینو سائیڈ کی تعریف ان الفاظ میں کی

 

" کسی انسانی گروہ کو مستقل تباہ کرنے یا معزورکرنے کا مجرمانہ ارادہ "



نسل کشی(جینو سائیڈ) کے دس مراحل


آخر یہ کیسے طے کیا جائے گا کہ وقوع پزیر ہونے والا واقعہ نسل کشی کے زمرے میں


 آتاہے؟ اسے سمجھنے کے لیے  جینو سائیڈ واچ کے بانی صدر گریگوری اسٹینٹن نے


 1996 کی بریفنگ میں ایک ماڈل پیش کیا۔ جسکے دس مرحلے تھے ۔یہ مراحل ایک


 ساتھ بھی ظاہر ہوسکتے ہیں اور وقفے وقفے سے بھی۔انکو سمجنے سے ممکنہ


 نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ مسلہ فلسطین کو اگر ان مراحل کی نظر سے دیکھا جائے


 تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جرم 7 اکتوبر کو نہیں بلکہ 76 سال پہلے ہی شروع ہوگیا تھا اور


 اس عرصہ میں نسل کشی کے تمام مراحل کا فلسطینیوں پر بھرپور طریقہ سے نفاز


 دیکھا جا سکتا ہے


درجہ بندی(Classification) 1




(ہم اور وہ)گروہ بندی کرنا ،جس سے صاف طور پر یہ نشاندہی ہو جائے کہ یہ


 الگ الگ گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ۔ مغربی کنارے اور غزہ میں


 یہودی بستیاں آباد کردی گئیں جسے دو گروہ وجود میں آگئے مقامی فلسطینی اور


 نوآبادکار یہودی (settler) غزہ کی نسبت مغربی کنارے میں ان بستیوں کی


 تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔



سمبلائزیشن (Symbolization) 2


علامتی نشان لگادینا۔جس سے انکی پہچان ہو اوروہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے


 جائیں ۔فلسطینیوں کو اسرائیلی عوام کے سامنے دہشت گرد اور ایک ایسا خطرہ بنا


 کر پیش کرنا جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہیں۔ اسرائیلی فلسطینیوں کو حیوان


 سے کم تصور نہیں کرتے۔



امتیازی سلوک(Discrimination) 3


امتیازی سلوک کرنا۔ جو فلسطینی اسرائیلی ریاست میں رہتے ہیں وہ اسرائیلی ۔


فلسطینی کہلاتے ہیں انکو وہ حقوق نہیں دیے جاتے جو ایک شہری کا حق ہوتا ہے


 اعلی تعلیم کے حصول سے لے کر ملازمتوں تک ان میں فرق کیا جاتا ہے۔ مغربی


 کنارہ جو مقبوضہ حصہ ہے وہاں نوآباد کار اول درجے کے شہری حقوق  رکھتے


 ہیں جبکہ فلسطینی اپنے علاقوں میں بھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔



غیر انسانی قرار دینا (Dehumanization) 4


مطلقہ گروہ کو غیر انسانی قرار دینا ۔ انہیں جانور  اور کیڑے مکوڑوں سے تشبہ


 دینا، جن کو پاوں تلےکچلا جاسکے۔ اسرائیلی حکام متعدد دفع اپنے بیانات میں


 فلسطینیوں کو جنگلی جانور کہہ چکے ہیں غزہ ہو یا مغربی کنارہ اسرائیلی کاروائیاں


 یہی ظاہر کرتی ہیں انکے نزدیک فلسطینی حشرات الارض ہیں ۔ اسرائیلی جیلوں میں جو


 سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ انکی سفاکیت کو خوب عیاں کرتا ہے۔



آرگنائزیشن (Organization ) 5


خاص آرمی یا گروہ کو نسل کشی کےلیے تیار کرنا ۔ آئی ڈی ایف اور شن بیٹ جسے


 حاص تربیت یافتہ فوج تیار کرنا ، جن کا مقصد ہی فلسطینیوں کو نشانہ بنانا ہے ۔مغربی


 کنارے میں فلسطینیوں کو ایذا دینے کےلیے راتوں گھروں میں چھاپہ مارنا، بغیر چارج


 کے گرفتاریاں کرنا اور نہتے فلسطینیوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنانا۔


پولرائزیشن (Polarization) 6


متعلقہ گروہ کے نمایاں سیاسی لیڈروں اور رہنماوں کو گرفتار کرنا یا قتل کر دینا۔


فلسطین ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جب انکے رہنماؤں کو تاحیات بامشقت


 قیدوبند کی سزائیں سنائیں جاچکی ہیں اور سینکڑوں کو کبھی آپاچے ہیلی کاپٹر


 اورکبھی بم دھماکوں سے قتل کیا گیا ہے


اجتماعی قتل کی تیاری(Preparation) 7


اجتماعی قتل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ایک اندازے کے مطابق نخبہ 1948


 میں تقریبا 12ہزار فلسطینیوں کو قتل کیاگیا۔اور حالیہ جنگ میں 28 ہزار


 فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔


ایذارسانی(Persecution) 8


متعلقہ گروہ کو حقارت اور نفرت کا نشانہ بنا کر ایذیتیں دینا۔ فلسطینیوں کو ان


 کے گھروں میں گھس کر انکے اہل خانہ کے سامنے بربریت کا نشانہ بنانا عام ہے حالیہ


 جنگ میں فلسطینی قیدیوں کو برہنہ کرکے ان پر تشدد کی فوٹیجز وائرل کر دی گئی ۔


زہنی اور جسمانی ایذارسانی کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔


ختم کرنا (Extermination) 9



چونکہ متعلقہ گروہ انکے نزدیک صرف حشرات ہیں لحاظا انکا قتل کوئی بڑی بات نہیں۔


 جس طرح غزہ اور مغربی کنارے میں ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے اور جس طرح 6 کروڑ


پچاس  لاکھ  کلوگرام سے زائد بارود غزہ پر برسایا جاچکا ہے ، اس سے نسلی کشی کی


 اورکتنی وضاحت مزیذ درکار ہیں۔


انکار کرنا(Denial) 10


اس بات سے انکار کرنا کہ انہوں نے متعلقہ گروہ کے متعلق کوئی جرم کیاہے۔


اسرائیلی حکام 28 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام کو سیلف ڈیفینس کا نام دے رہا


 ہے اور وہ کسی جنگی جرم کا مرتکب نہیں ہوا اور نہ ہی اس سے نسل کشی


 سرزرد ہوئی ہے۔



اسرائیل اور اسکے اتحادی اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ غزہ میں کوئی ایسی


 کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی جس یہ  ثابت ہو کہ وہاں جینو سائیڈ ہوا ہے۔ اگر


 مندرجہ بالا مراحل کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نسل


 کشی جیسے سنگین جرم کا مرتکب نہیں ہوا؟


نسل کشی کو پہلی بار1946میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی


 قانون کے تحت جرم کے طور پر تسلیم کیا تھا۔اور 1948 میں نسل کشی کے


 جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن(نسل کشی کنونشن)میں ایک آزادجرم کے


 طور پر مرتب کیا گیا تھا۔ 11 ستمبر1946 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی


 طرف سے96قرارداد پیش کی گئی جس میں نسل کشی کو ایک جرم قرار دیا گیا


 اس قرارداد میں نسل کشی کی تعریف اور اس کے متعلق اٹھائے جانے والے


 .اقدامات پر روشنی ڈالی گئی


آرٹیکل (I)


معاہدہ کرنے والے فریقین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ نسل کشی، خواہ زمانہ امن


 میں ہو یا جنگ کے وقت ،بین الاقوامی قانون کے تحت ایک جرم ہے،جسے وہ روکنے


 اور سزا دینے کےلیے کرتے ہیں


آرٹیکل (II)


موجودہ کنونشن میں ،نسل کشی کا مطلب ہے درج زیل میں سے کوئی بھی ایسی


 کاروائی جسکا ارتکاب کوئی قومی،نسلی نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی


: طور پر تباہ کرنے کے ارداے سے کیا جائے جیسا کہ


الف۔ گروپ کے ارکان ک قتل کرنا۔


ب۔ گروپ کے ارکان کو شدید  جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا۔


ج۔ جان بوجھ کر زندگی کے گروہی حالات کو متاثر کرنا جو اسکی جسمانی تباہی


 کو مکمل یا جزوی طور پر لانے کے لیے شمار کیے گئے ہیں۔


د۔ گروپ کے اندر پیدائش کو روکنے کے لیے اقدامات کا نفاز۔


ڈ۔ گروپ کے بچوں کو  زبردستی دوسرے گروپ میں منتقل کرنا۔



آرٹیکل(III)


: درج زیل اعمال قابل سزا ہونگے


الف۔ نسل کشی۔


ب۔ نسل کشی کی سازش کرنا۔


ج۔ نسل کشی کے لیے عوام کو براہ راست اکسانا۔


د۔ نسل کشی میں کرنے کی کوشش کرنا۔


ڈ۔ نسل کشی میں ملوث ہونا۔


آرٹیکل(IV)


نسل کشی کا ارتکاب کرنا یا آرٹیکل IIIمیں بیان کردہ کسی بھی صورت کے ظاہر


 ہونے پر سزا کا نفاز کیا جائے گا چاہے وہ قانونی حکمران ہوں، سرکاری افسر


 ہوں یا کوئی ذاتی طور پر ملوث ہو۔


بیان کردہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کے آرٹیکلز کے مطابق یہ تمام صورتیں


 فلسطین میں ہونے والی نسل کشی پر پوری اترتی ہیں۔ فلسطین میں نسل کشی کی


 سازش نہیں ہوئی بلکہ اسکا مکمل مظاہرہ کیا گیا،جس میں حکمران سرکاری


 افسران اور عوام بھی ملوث ہیں سوشل میڈیا ایسے بیانات سے بھرا پڑا ہے جس


 میں تعصب اور نسل کشی کی زبان سر عام استعمال کی گئی ہے۔


جینو سائیڈل بیانات


جہاں اسرائیلی کے اتحادی اس بات کو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اسرائیل اتنی


 بمباری کرکے صرف اپنا دفاع کر رہا ہے وہی اسرائیلی حکام سوشل میڈیا پر اپنی


 ذہنی بیماری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نسل کشی پر مبنی بیانات دینے سے ہر گز


 گریز نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں ایک سابقہ اسرائیلی فوجی خاتون اطالیہ بن ابانے


 اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک بیان جاری کیا۔جس میں اطالیہ نے بتایا کہ جب


 اس نے اس نسل کشی میں حصہ لینے سےانکار کردیا تو اس کو چار ماہ کےلیے


 ملٹری جیل میں بند کردیا گیا ۔اطالیہ نے کہا کہ وہ اسرائیلی حکام کی نسل کشی کی


 زبان استعمال کرنے پر توجہ کروانا چاہتی ہیں۔


اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرنے کا حکم دیا


 جس میں بجلی نہیں ،خوراک نہیں،پانی نہیں،ایندھن نہیں،سب کچھ بند ہے انہوں


 نے مزید کہا ہم انسانی جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اسکے مطابق  عمل


" کررہے ہیں


بنجمن نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن ایریل کالنر نے


انیس سو اڑتالیس میں ہونے والی فلسطینی عربوں کی ایک بڑی بے دخلی کو


 دہرانے کا مطالبہ کیا جسے عرف عام نکبہ کہاجاتاہے


توتسیوں کی نسل کشی کے وقت انکو " کاکروچ " کہا جاتا تھا اب اسرائیلی فوج


 اور حکام فلسطینیوں کو کاکروچ قرار دیتے ہیں اسرائیلی حکام اور کئی سیاسی


 رہنماؤں نے فلسطینیوں کو کینسر اور کیڑے قرار دیا اور وہ انکو مسل دینے کا


 مطالبہ کرتے رہتے ہیں

 

یورشلم میں عبرانی یونیورسٹی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عربوں کو


 قدامت پسند قرار دیتے ہیں۔ وہ عربوں کو گھٹیا، منخرف اور مجرم سمجھتے ہیں ۔


وہ جو ٹیکس ادا نہیں کرتے وہ جو ریاست سے دور رہتے ہیں وہ لوگ جو ترقی


 .کرنا نہیں چاہتے


دو ہزار دو دوسری انتفاضہ کے دوران تل ابیب  کے اخبار نے اسرائیلی بچوں کا


 ایک خط جاری کیا  جس کا عنوان تھا " پیارے فوجی براہ کرم بہت سارے عربوں


 کو مار ڈالو " اخبار میں کہا گیا کہ اس طرح کےبہت سے خط موصول ہوئے۔ اور


 حال ہی میں ایسی فوٹیجز جس میں سکول کے بچوں سے غزہ پر برسائے جانے


 والے میزائلز پر فلسطینیوں کے نام لکھوائے گئے۔ ان حقائق سے اسرائیل کی


 جینو سائیڈل زہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے


اسرائیل کی نیشنل سیکیورٹی کے وزیر اتمار بن گویر نے گزشتہ بیان میں کہا کہ


    جو چیز غزہ میں داخل کرنی چاہئے وہ فضائی فورس سے سینکڑوں ٹن بارود


 ہے نہ کہ ایک اونس انسانی امداد ۔


افزائش کی روک





بڑے پیمانے پر قتل عام سے لے کر افزائش کی روک تھام تک اسرائیل ہر ہتھکنڈ ہ


 آزما رہاہے۔ 7 اکتوبر سے جاری بمباری کی وجہ سے گلوبل ہیلتھ گروپ نے


 اعلامیہ جاری کیا ہے غزہ میں بچے کو جنم دینے کے لیے کوئی محفوظ جگہ


 نہیں بچی ۔گزشتہ تین ماہ سے جاری خوفناک بمباری کی وجہ سے غزہ میں


 اسقاط حمل  کی تعداد 300 گنا بڑھ گئ ہے زہنی اور جسمانی طور پر زخمی


 ہونے سے فلسطینی خواتین اپنے بچے گوا رہی ہیں ۔ایسے حالات میں جب اپنی


 جان بچانا مشکل ہو جائے، تو فلسطینی عورتیں دہری مشکل سے گزرہی ہیں۔



وہ خواتین جنہوں نے دوران جنگ بچوں کو جنم دیا سنگین مشکلات کاسامنا


 کررہی ہیں۔ ان حالات میں نہ تو ماں کو مناسب خوراک میسر ہے اور نہ ہی


 نومولود بچے کو ۔دنیا میں آنے والا ننا سا بچہ اپنی بقا کی مسلسل جنگ لڑ رہا


 ہے۔


مغربی کنارے کے حالات غزہ سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ مغربی کنارے میں


 ٹارگٹ کلنگ میں تیزی آچکی ہے  ۔مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو بغیر کسی


 چارج کے تا حیات یا طویل قید کی وعید سنا دی جاتی ہے ،ایسے میں کئی ایسے


 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سپرم کی اسمگلنگ کا بتایا گیا ۔فلسطینیوں کو


 یوں طویل قید ومشقت کی سزائیں سنانے کا مقصد انکی عائلی زندگی کو تباہ کرنا


 ہے ایسے میں سپرم کی جیل سے اسمگلنگ ہی انکی بقاء نسل کا آخری خربہ رہ


 جاتا ہے جس صرف چند خاندان نے استعمال کیا ہے کیوں کہ یہ کوئی آسان رستہ


 نہیں۔



  ٹارگٹ کلنگ





اسرائیل جسکا یہ دعوی ہے کہ وہ حماس فائیٹرز  کو نشانہ بنا ریا ہے ،مکمل طور


 پر غلط اور بے بنیاد ہے نومولود بچوں سے لے کر بزرگوں تک کو اسرائیلی


 سائنپر ٹارگٹ کررہے ہیں یہاں تک کہ جانوروں کو بھی نہیں چھوڑا گیا ۔کیمپوں


 میں محصور بے گھر فلسطینی جب اپنے بھوک اور پیاس سے نڈھال بچوں کے


 لیے کچھ کھانے کو ڈھونڈننے نکلتے ہیں تو گھات لگائے بیٹھے سنائئپر کی گولی


 کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔اور انکا بچا ہوا کنبہ یہ نہیں جانتا کہ اب انکو بھوک اور


 پیاس کے ساتھ اپنے پیاروں کی جدائی بھی برداشت کرناہوگی۔سویلینز کے علاوہ


 ڈاکٹرز،پیرامیڈیکل سٹاف اور صحافیوں کو بھی مسلسل بربریت کا نشانہ بنایا جارہا


 ہے۔ سیف زون قرار دیے جانے والے علاقے میں بھی مسلسل خوفناک بمباری


 جاری ہے گاڑیوں میں اپنے خاندانوں کے ساتھ مسلسل نکل مکانی کرتے فلسطینی


 اسرائیلی میزائلوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اور بے حسی اور بے شرمی کا بہادری


 سے مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے اتحادی اس کا دفاع کررہے ہیں۔



امداد کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرنا





غزہ جسکا شمار دنیا کے گنجان آباد  علاقوں میں ہوتا ہے جہاں 23 لاکھ کی آبادی


 ہے اور جو جینو سائیڈ کا شکار ہے ، وہاں بھوک اور پیاس بچے ہوئے انسانوں


 کو موت کے منہ میں دھکیلنے میں مصروف ہیں ۔دنیا بھر سے بھیجے جانی والی


 امداد آخر کیو ں فلسطینیوں تک نہیں پہنچ رہی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ غزہ


 کا بلاکڈ ہونا ہے مصر نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں اور اب تو باقاعدہ باڑ


 کے دوسری طرف دیوار بھی تعمیر کی جارہی ہیں تاکہ فلسطینی مصر میں داخل نہ


 ہوجائیں،ہزاروٹن امداد رفح بارڈر پر برباد ہورہی ہے لیکن مصر اس امداد  کو


 مظلوموں تک پہنچانے سے قاصر ہے کیونکہ کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے


 سفارتی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔دوسری طرف اسرائیلی آبادکار ہیں جو امدادی


 ٹرکوں کو غزہ میں داخل نہیں ہونے دے رہے ۔حال ہی میں امدادی ٹرک پر میزائل


 سے حملہ کرکے تباہ کردیاگیا۔ لائن میں لگے فلسطینیوں پر اس وقت حملہ کیاگیا


 جب وہ امدادی ٹرک سے پینے کے لیے پانی لے رہے تھے۔


جہاں ایک طرف سنائیپر اور میزائلوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی


 ہے وہی بھوک اور پیاس کی شدت فلسطینیوں کی جانیں لے رہی ہے ۔غزہ کے


 لوگ بھوک مٹانے کے لیے جانوروں کے لیے استعمال ہونے والی غذا کو کھانے


 پر مجبور ہیں جو نہ صرف انکی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے


 جانوروں کے لیے بھی غذائی قلت ہو گئی ہے۔




کیا اسرائیل کو اسکے جرم کی سزا ملے گی؟ 


یہ ایک ایسا سوال ہے جسکا جواب صاف اور واضح ہے اور اسکا جواب ہے بلکل


 بھی نہیں ۔سوال یہ ہونا چاہیے کہ آخر اس قتل و غارت کی سزا دے گا کون؟ اقوام


 متحدہ  جیسا بڑا ادارہ اس خونی کھیل کو نہیں روک سکا کیونکہ اس ادارے کی


 بنیاد ہی ان جرائم کی پردہ پوشی کرنے کے لیے رکھی گی ہے۔آئی سی جےکی


 سماعت سے بھی اسرائیل کو ئی فرق نہیں پڑا اس کے بعد بھی اسرائیل ہزاروں


 فلسطینیوں کوقتل کر چکا ہے۔ اسرائیل کے مطابق وہ یہ ساری کاروائی بین


 الاقوامی قوانین کے مطابق کررہا ہے۔ یعنی نسل کشی کرنے کے بھی قوانین مقرر


 ہیں جو کو فالو کرکے آپ یہ غلیظ فعل سر انجام دے سکتے ہیں ۔بین الاقوامی


 طور پر کھلی منافقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اگر یہی کام کسی اور ملک سے


 سرزرد  ہوتا تو اسکے خلاف فوجی ایکشن لیاجاتا اور معاشی پابندیاں لگادی


 جاتیں۔ لیکن اسرائیل کے خلاف یہ قدم اٹھاتا کون ؟وہ جو خود نسل کشی کے


 مرتکب رہ چکے ہیں امریکہ ،برطانیہ، جرمنی بھی اس نسل کشی کے کھیل سے


 لطف اندوز ہو چکے ہیں  ان ریاستوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں جب اتنے


 بڑے پیمانے پر انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاراگیا ہو ۔جب انکو انکے جرم کی


 سزا نہیں ملی تو اسرائیل کو کیسے اس دنیا مل سکتی ہے ۔لیکن حشر پر یقین


 رکھنے والےجانتے ہیں کہ ایک انسان ہو یا پوری نسل کوقتل کرنے حساب لیا


 جائے گا۔


اسرائیلی بستیوں کا قیام


ماضی بھی اسرائیل نے قبضہ کرکے اسرائیلی بستیاں قائم کیں اور اب بھی غزہ کے


 لیے یہی منصوبہ پیش کیا جارہا ہے ۔ غزہ میں انفراسٹرکچر مکمل تباہ کردیا گیا ہے


 ،یہاں تک کہ زمین میں مدفون کو بھی نہیں بخشا گیا ۔ صہیونی فورسز نے غزہ کے


 قبرستان بھی اکھاڑ کر رکھ دیے ہیں اور وجہ ہے زمین کو آبادی کاری کے لیے


 ہموار کر نا ۔اب تک غزہ میں ایک بزار سے  زائد مساجدکو مسمار کردیاگیا ہے۔


فلسطینی وزارت صحت کا کہناہے کہ غزہ اب ناقابل رہائش ہو چکا ہے ۔اسکے علاوہ


 مغربی کنارے میں القدس (یورشلم) کے مرکز میں صہیونی آبادی کے قیام کی


 منظوری دے دی گئ ہے۔



بڑے پیمانے پر  انسانی معزوری کا خطرہ


اسرائیل کے فضائی حملوں میں جہاں اب تک 28ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو


 چکے ہیں اور 67ہزار سے زائد افراد شدید زخمی ہیں ۔ان زخمیوں میں ہزاروں 


 مریض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کئی اعضاء فضائی حملوں میں کٹوا دییے ہیں۔


 ان میں بڑی تعداد بچوں کی ہے جنہوں نے اپنے بازوں اور ٹانگیں کھودیں ہیں ۔


 ہزاروں مریض تھرڈ ڈگری جلنے کا شکار ہیں۔ اس نسل کشی میں صورت حال


 ناقابل بیان حد سنگین ہو چکی ہے جہا ں ایک طرف 28 ہزار فلسطینی شہید


 ہوچکے ہیں وہی 67 ہزار سے زائد مریض مناسب طبی سہولت نہ ہونے کی وجہ


 سے ہر تکلیف اور اذیت کاسامنا کررہے ہیں۔وہ بچے جو مستقبل میں اتھلیٹ یا فٹ


 بالر بننا چاہتے تھے اب وہ چلنے کے قابل بھی نہیں رہے ۔ طبی سہولتوں کے


 فقدان سے صورت حال مزید بچیدہ ہو چکی ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر معزوری


 ایک چھوٹے سے خطے میں تشویش ناک ہے۔



انسانی حقوق کے اداروں کی منافقت 






غزہ میں جاری نسل کشی پر ایمنسٹی انٹرنیشنل،ہومن رائٹس واچ،گلوبل رائٹس اور


 UN واچ جیسی انسانی حقوق کی علمبردار اجنسیاں کہاں ہیں؟ یونیسف،سیف دا


 چلڈرن، ڈیفنس فار چلڈرن اور رائٹ ٹو پلے جیسی مشہور اجنسیوں کو کیا فلسطین


 میں زخموں سے تڑپتے بچے نظر نہیں آرہے؟کیا یہ ادارے فلسطینی بچوں کی


 زہنی اور جسمانی اذیت نہیں دیکھ سکتے؟افسوس کے ساتھ یہ تمام ادارے اپنی


 زمہ داری پوری کرنےمیں ناکام رہے ہیں ۔اگر یہی صورت حال یوکرین میں ہوتی


 تو یہی ادارے وہاں سر توڑ محنت کررہے ہوتے۔



امداد سامان کی ترسیل میں رکاوٹ



تقریبا 1050 امدادی سامان کے کنٹینر غزہ کے باہر ہیں جنکو غزہ میں داخل


 نہیں ہونے دیا جارہا ہے ۔ شمالی غزہ  سے 30 کلو میٹر دور اشود پورٹ پر


 اسرائیل نے امداد کا راستہ بند کر رکھا ہے اوردوسرا راستہ رفح باڈر جو مصر


 کے ساتھ وہاں سے چند کنٹینرہی گرنے دیے جاتے ہیں جبکہ وہاں 5•1ملین لوگ


 پھنسےہوئے ہیں اور یہ امداد انہی کے لیے ناکافی ہے ،جبکہ شمالی غزہ میں


 قحط کی صورت ہو چکی ہے۔ اسرائیل آبادکار امداد کی راہ میں ملسل رکاوٹیں


 کھڑی کررہے ہیں اور امداد کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔


اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہےاور اس کا انکار بھی کررہا ہے انتہائی


 بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ جیسےاتحادی ملک نہ


 صرف اسے اسرائیل کا حق دفاع قرار دیتے ہیں ،بلکہ اپنی عوام کا ٹیکس بھی


 اس نسل کشی کےفروغ میں  بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔


Related searches

  • Gaza war movie
  • Gaza War 2014
  • Gaza war (2023/24)
  • Gaza war map
  • Gaza war summary
  • Gaza War 2024
  • Gaza war start date
  • Gaza war update


People also ask

  • Which country is Gaza in war with?
  • Is Gaza Palestine or Israel?
  • How many died in Rafah?
  • What is the crisis in Gaza?


Post a Comment

3 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.