حقیقی مجرم
تمہارے ہاتھوں کا قصور ہے، جو خود کو روک نہ سکے اور تمھیں زیادہ کھانا کھلا دیا
اسلم رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتا رہا، لیکن نیند اس سے کوسوں دور رہی۔آخر خدا خدا کر کے ہر سُو اُجالا پھیلا تو اس نے بستر چھوڑا اور مزدوری پر جانے کی تیاری کرنے لگا۔مناسب آرام نہ ملنے کی وجہ سے اس کی طبیعت بوجھل تھی اور مزاج چڑچڑا تھا۔
”اسلم! آج تم توجہ سے کام نہیں کر رہے، خیریت ہے!“ ٹھیکے دار نے اسے سست ہوتے دیکھ کر پوچھا۔
اسلم نے سچ سچ بات کر ڈالی۔ٹھیکے دار پوری بات سن کر بولا:”تمہارے ہاتھوں کا قصور ہے،جو خود کو روک نہ سکے اور تمھیں زیادہ کھانا کھلا دیا۔“ ٹھیکے دار بات کر کے آگے بڑھ گیا،جبکہ اسلم کچھ سوچ کر اپنے ہاتھوں سے مخاطب ہوا:”تمہاری وجہ سے میری نیند خراب ہوئی۔
ہاتھوں نے گلے شکوے سنے تو جھٹ بولے:”ہمارا کوئی قصور نہیں۔
تم نے اپنی مرضی سے ڈٹ کر کھایا۔
بھلا ہم کیا کرتے۔
اب شامت مرضی کی آ گئی:”اے دل! یہ سارا کیا دھرا تمہارا ہے۔اگر تم چاہتے تو ہاتھوں کو زیادہ کھلانے سے روک سکتے تھے۔“ اسلم نے دل کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا۔
دل بھلا کب خاموش رہتا ہے۔یہ پیدائش سے موت تک بغیر تھکے دھڑکتا ہے، کیونکہ دل کے عضلات جنھیں ”Cardiac Muscles“ کہا جاتا ہے، عمر بھر نہیں تھکتے۔دل نے گہری سانس لی اور بولا:”اب بھلا میرا کیا گناہ!میرے پاس کام بہت ہے۔
میرے دائیں جانب سارے جسم سے خون صاف ہونے کے لئے آتا ہے اور پھیپھڑوں سے آ کر پورے جسم کو مہیا کیا جاتا ہے۔مجھے فرصت کہاں کہ اس طرح کے کام کروں!“ دل نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا اور بات ختم کرتے کرتے ذمے داری معدے پر ڈال دی۔
معدہ (Stomach) بھی اب تک کی پوری گفتگو سن چکا تھا۔اپنی برائی سن کر بھڑک اُٹھا:”اچھا جی! کوئی نہ ملا تو ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔
میں ساری باتیں سن چکا ہوں۔میری کوئی غلطی نہیں۔جیسے جیسے غذا معدہ میں پہنچتی رہی میری دیواروں سے متعدد رطوبتیں خارج ہو کر ہاضم کرتی رہیں۔بے تحاشا کھانے کے باوجود میں خوراک ہضم کرنے میں لگا رہا۔ساری رات آرام نہیں کر سکا۔دو وقت کا کھانا ایک بار کھانے کے بعد چہل قدمی نہ کرنے کی وجہ سے یہ گڑبڑ ہوئی۔پروٹین کو میں نے ہضم کیا، جب کہ چکنائی چھوٹی آنت میں ہضم ہو کر بدن میں جذب ہوئی۔
اب اس سارے معاملے میں ہماری کوئی ذمے داری نہیں۔میرے خیال میں دانتوں کی شرارت ہے۔“ معدہ نے اسے اچھی خاصی سنا دی تھیں۔
اسلم کا دھیان جھٹ دانتوں کی طرف گیا۔دانت بھلا کب اپنی بُرائی سن سکتے تھے،گنتی میں 32 تھے اور اکثریت میں تھے۔سامنے والا دانت ذرا ناراضی سے کہنے لگا:”جناب عالی!ہم ایسا ویسا کوئی کام نہیں کرتے۔ہمیں جو چبانے، کھانے، پینے کو ملتا ہے، پوری محنت اور لگن سے خوراک کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو چھوٹے ذرات میں تبدیل کر کے لعابِ دہن کی مدد سے خوراک کی نالی کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔
نیند نہ آنے کا سبب ہماری وجہ سے نہیں!“ دانتوں نے متحد ہو کر کہا۔یہ تعداد میں زیادہ اور مضبوط تھے۔انھوں نے آنکھوں کو قصوروار ٹھہریا اور خاموش ہو گئے۔
اسلم اب تک ہر طرح کی صفائیاں سن کر اُکتا گیا تھا۔وہ ناراضی سے آنکھوں سے مخاطب ہوا:”لو!اب تم ذمے دار ہو۔اگر تم وقت سے بند ہو جاؤ تو بھلا نیند کا مسئلہ نہ ہو۔
آنکھیں دو تھیں، فوراً متحد ہو کر یک زبان بولیں:”واہ جی واہ!ساری رات ہمیں زبردستی دبا دبا کر بند کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
پروردگار عالم نے رات آرام کے لئے پیدا کی ہے، لیکن افسوس کسی کا گناہ ہمارے سر پہ تھوپا جا رہا ہے۔ساری رات کروٹیں بدل بدل کر ہمیں زبردستی بند کیا گیا۔ہماری پلکوں کا کام آنکھوں کی حفاظت کرنا ہے۔وہ کام ہم کرتے رہے۔ہمارا کوئی قصور نہیں۔یہ سب دماغ کا کیا دھرا معلوم ہوتا ہے۔
”او میاں! کیا بات ہے! کہاں غائب ہو! جلدی جلدی کام مکمل کرو۔
تنخواہ کام کی ملے گی، بیٹھنے کی نہیں۔“ ٹھیکے دار برہم ہو کر بولا۔
اسلم جو جسم کے اعضاء سے جھگڑنے میں مصروف تھا،خیالوں کی دنیا سے نکلا اور کام شروع کر دیا، جبکہ جسم کے تمام اعضاء ہنسی مذاق میں لگ گئے۔وہ جانتے تھے کہ جو شخص فطرت کے قوانین سے دوستی نہیں رکھتا، وہ اسی طرح نقصان اُٹھاتا ہے۔اس معاملے میں یہ ہوا کہ زبان کا خیال کسی کو نہ آیا، جس نے ذائقے کا لالچ دے کر اسلم کو زیادہ کھلا دیا اور دل و دماغ کو ماؤف کر دیا۔حقیقت میں سب سے بڑا اور بنیادی جرم تو اسی کا تھا۔
Copyright Disclaimer: - Under section 107 of the Copyright Act 1976, allowance is made for FAIR USE for purposes such as criticism, comment, news reporting, teaching, scholarship, and research. Fair use is a use permitted by copyright statutes that might otherwise be infringing. Non-profit, educational, or personal use tips the balance in favor of FAIR USE.