بول میری مچھلی
آخری بار جب جال پانی سے باہر نکالا تو اس نے صبح صادق کی ہلکی سی روشنی میں دیکھا کہ ایک مچھلی کی دم میں کچھ چمک رہا تھا
تیمور نے اگلے چوبیس گھنٹوں کے لئے ضرورت کی ہر چیز ماں کے بستر کے پاس ایک میز پر رکھی اور ماں کے پاس بیٹھ گیا۔ماں نے مندی آنکھیں کھول دیں،تو تیمور نے ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چوما اور ماں کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ماں کے لب ہلے اور تیمور سمجھ گیا کہ ماں اسے دعائیں دے رہی تھی۔اس نے ماں کے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ماں کو سمجھایا کہ ”ماں جی خبروں میں سن رہے ہیں کہ کل سے سمندری طوفان آ رہا ہے جس کی وجہ سے اگلے کئی روز تک سمندر میں جا کر مچھلی نہیں پکڑی جا سکے گی،اس لئے میں آج رات واپس نہیں آؤں گا بلکہ زیادہ ساری مچھلی جمع کروں گا تاکہ اگلے چند روز تک کے لئے آپ کی دوا اور خوراک میں کمی نہ آ سکے“۔
تیمور کی بات ختم ہوئی تو ماں کے چہرے پہ مسکراہٹ اور آنکھوں کے گیلے کناروں سے اسے سمجھ آ گئی کہ ماں اس کی بات سمجھ رہی ہے۔
اس نے ماں کو بتایا کہ ”اس کی ہمسائی خالہ ستو اس کے پاس اس کی خبر گیری کے لئے آتی رہے گی میں اسے بتا جاؤں گا“۔ماں کو ساری باتیں سمجھا کر تیمور نے اپنی راہ لی اور ساحل پہ جا کر اللہ کا نام لے کر اپنی کشتی سمندر میں ڈال دی۔
اور بھی کئی ملاح اپنی کشتیاں سمندر میں ڈال کر رزق حلال کمانے کی کوشش میں مصروف تھے۔
سمندر میں پھرتے پھیراتے دوپہر اور پھر شام ہو گئی تھی۔تیمور نے اپنی کشتی میں کافی مچھلی جمع کر لی تھی۔سب ماہی گیر گھروں کو لوٹ رہے تھے۔تیمور بھی کشتی کو ساحل پہ لے آیا۔اپنی کشتی میں رکھی پوٹلی سے نکال کر سادہ سا کھانا کھایا اور اپنے باپ کو بھی یاد کیا جب وہ آٹھویں کلاس میں تھا کہ اس کا باپ چل بسا تھا اور ماں ایک اچانک بیماری کا شکار ہو کر بستر سے لگ گئی تھی۔
اسے یقین تھا کہ خالہ ستو نے یقینا ماں کو کھانا کھلا دیا ہو گا۔خالہ ستو تیمور کی ماں کی سہیلی تھی مگر اب اس کی بیماری کے بعد سے اس کی تیماردار بھی بن چکی تھی۔تیمور جب بھی کہیں جاتا خالہ ستو اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی ماں کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔تیمور کھانا کھا کر لیٹ گیا مگر وہ دل میں دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ پاک!میری مدد کر،کہ میں اپنی ماں کا علاج کروا سکوں اور وہ تکلیف سے نکل آئے۔
ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ کوسٹ گارڈ نے سیٹی بجا کر اسے یہاں سے چلے جانے کا کہا۔ مگر تیمور خاموشی سے لیٹا رہا۔کافی دیر گزر گئی تھی۔تیمور بھی تھک چکا تھا مگر اسے پتہ تھا کہ اگر میں بھی گھر چلا گیا تو پتہ نہیں کتنے دن کاروبار سے ناغہ ہو جائے اور اگر پیسہ نہ ہوا تو ماں کی دوائیاں کہاں سے آئیں گی۔اس فکر نے اسے ہمت دی اور اس نے کشتی پھر سمندر میں ڈال دی۔
رات کی تاریکی میں چاند چمک رہا تھا جس کی کرنیں سمندر کی لہروں پہ کھیل رہی تھیں۔ مگر تیمور اپنے کام میں مصروف تھا کہ باپ کی موت کے بعد وہی ماں کا اور ماں اس کا سہارا تھی۔اس نے کافی ساری مچھلی جمع کر لی تھی اور اب اس کا رخ ساحل کی طرف تھا کہ کوسٹ گارڈ گھنٹیاں بجا بجا کر سمندر میں موجود اکا دکا ماہی گیروں کو واپس آنے کی ہدایت کر رہے تھے کہ شام تک سمندر طوفان سے پاگل ہو جانے والا تھا۔اس نے آخری بار جب جال پانی سے باہر نکالا تو اس نے صبح صادق کی ہلکی سی روشنی میں دیکھا کہ ایک مچھلی کی دم میں کچھ چمک رہا تھا۔اس نے اپنا وہم سمجھتے ہوئے اسے بھی مچھلیوں کے ڈھیر پہ ڈالا اور چھابڑا اٹھا کر گدھا گاڑی پہ رکھا اور کشتی کو ساحل پہ مضبوطی سے باندھ دیا۔
یہ روبوٹ کچرے کے تناسب کے ساتھ ساتھ کئی طوفانوں کی بھی پیشگی خبر دے سکتا تھا
اس نے غور کیا تو یہ آواز مچھلی نما چیز سے آ رہی تھی۔ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ کھلونا نما مچھلی کچھ کہہ رہی ہو۔وہ اسی الجھن میں تھا کہ باہر سے خالہ ستو کی آواز آئی بیٹا تیمور، یہ میری ٹارچ کی روشنی بہت کم ہو گئی ہے شاید اس کے سیل کمزور ہو گئے ہیں اگر تمہارے پاس دو فالتو سیل ہوں تو مجھے دے دو۔تیمور نے ٹب واپس چارپائی کے نیچے کیا اور شہر سے لائے ہوئے دو سیل خالہ کو دے دیئے۔
اور واپس آ کر اب پھر وہ اس مچھلی نما چیز کو الٹنے پلٹنے لگ گیا۔اسی طرح اس کا ہاتھ لگا کہ ایک جگہ سے کوئی پرزہ پیچھے ہٹا اور اندر سے دو سیل باہر گر گئے۔جیسے ہی سیل گرے تیمور کے ذہن میں فوراً ایک خیال آیا اور اس نے جلدی سے دوسرے دو سیل اپنے تھیلے سے نکالے اور ان بوسیدہ سیلوں کی جگہ اس مچھلی کے اندر فٹ کر دیئے۔
مچھلی رک رک کر کہہ رہی تھی کہ ”ساحل۔۔۔پہ۔۔۔یومِ آزادی۔۔۔سمندر۔۔۔کچرا۔۔۔ستر۔۔۔فیصد اضافہ۔۔۔تیمور چونک گیا۔یعنی اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پچھلے ہفتے ساحل پہ جو یوم آزادی منایا گیا اس سے سمندر میں کچرے کی سطح میں مزید ستر فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
تیمور پہلے بھی لوگوں کے ساحل پہ گند پھیلانے سے پریشان تو رہتا تھا مگر اب تو حد ہی ہو گئی تھی۔
اب اسے سمجھ آ رہی تھی کہ یہ کیا چیز ہے اس نے ایک بار شہر منڈی میں سمندری روبوٹ کی بات سنی تھی کہ جو سمندر کے اندر کی خبریں بھی دے گا۔اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ یقینا وہی روبوٹ ہے۔چند دن میں طوفان تھم گیا۔ماہی گیر واپس سمندر میں جانے لگ گئے۔تو تیمور کو ایک دن ایک خیال سوجھا اس نے ایک لمبی رسی لے کر مچھلی کے سر کے اس پاس مضبوطی سے باندھ لی اور سمندر میں جا کر اسے پانی میں ڈال کر رسی کا دوسرا سرا کشتی کے ساتھ باندھ لیا۔
اس رات واپس آ کر رات کے وقت فارغ ہو کر اس نے اس مچھلی کو پھر نکالا، بٹن ذرا سا دبایا تو مچھلی بولی،اتوار۔۔۔دن۔۔۔دس فیصد۔
اب تیمور کو ایک آئیڈیا سوجھا۔وہ شہر گیا تو اس نے منڈی میں مینیجر کو ساری بات بتائی۔پہلے تو مینیجر نے یقین نہیں کیا مگر جب اس نے اعداد و شمار بتائے تو کسی حد تک اسے بھی یقین آ گیا۔وہ تیمور کو لے کر اخبار کے دفتر چلا گیا۔
اور اخبار کے ایڈیٹر کو تسلی سے ساری بات بتائی۔ایڈیٹر بھی حیران تھا کہ یہ وہی اعداد و شمار تھے جو انھوں نے چند دن پہلے جاری کئے تھے۔ایڈیٹر نے کہا کہ ”چند دن بعد عید ہے عید کے دن بھی مچھلی کو سمندر میں ڈال کر تجربہ کیجئے پھر مجھے بتائیے۔“مینیجر اور تیمور نے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہے۔اور عید پہ جو اعداد و شمار مچھلی نے بتائے، اس ایڈیٹر نے بھی وہی چھاپ دیے۔
اور اگلے دن ان کی اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب،ٹھیک وہی اعداد و شمار کسی بین الاقوامی میگزین نے بھی بتائے۔
اب ایڈیٹر بھی حیران تھا کہ وہ مچھلی کیا ہے؟ اگلے دن ایڈیٹر اور منڈی کا مینیجر خود تیمور کے گھر آ گئے اور مچھلی نما چیز کو دیکھنے۔مینیجر نے بھی اسے دیکھ کر کہا کہ یہ روبوٹ ہے اور ہمیں یہاں کسی اتھارٹی کو خبر کرنی چاہیے۔تیمور بھی اس بات سے متفق تھا اگلے دن وہ تینوں مچھلی کو لے کر سمندر کا کنٹرول سنبھالنے والی کمیٹی کے دفتر میں چلے گئے۔
وہاں جب کمیٹی کے اہلکاروں نے دیکھا کہ یہ تو وہی روبوٹ ہے جو چند دن پہلے تجربے کے لئے سمندر کی تہہ میں بھیجا تھا مگر کسی خرابی کی وجہ سے اس کا رابطہ ان سے نہیں رہ پایا تھا۔
اہلکار تو اس کے لئے بہت پریشان تھے ممکن تھا کہ ان کی نوکری بھی چلی جاتی، کہ یہ روبوٹ ایک ملک نے تحفہ دیا تھا جو ہر روز سمندر کی تہہ میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کی مقدار سے برابر آگاہ کرتا رہتا تھا۔
کچرے اور آلودگی کے خاتمے کے لئے اس کی درست مقدار معلوم کرنا ازحد ضروری تھا۔یہ روبوٹ کچرے کے تناسب کے ساتھ ساتھ کئی طوفانوں کی بھی پیشگی خبر دے سکتا تھا۔تیمور کی اس کاوش کو بہت سراہا گیا اور اگلے دن اسے انعام دینے کے لئے ایک تقریب بھی منعقد ہوئی۔جس میں تیمور نے کہا کہ’میں اپنے ہم وطنوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک ہم اپنی سرزمین اور ساحل صاف نہیں رکھیں گے ہمارے روبوٹ اور ترقی کی کوششیں اسی طرح رائیگاں جاتی رہیں گی۔
ترقی یافتہ ممالک تو روبوٹ کی مدد سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر انسانی جسم کے آپریشن بھی کر رہے ہیں اور ہم ابھی یہ ضروری ٹیکنالوجی دوست ممالک سے ہی مانگ رہے ہیں۔ روبوٹ اب زندگی کا حصہ ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم ٹیکنالوجی کو فروغ دیں ورنہ ہم دوسرے ملکوں سے بہت زیادہ پیچھے رہ جائیں گے۔تیمور کو بہت سا انعام بھی ملا اور اس کی ماں کو سرکاری طور پہ شہر کے بڑے ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں امریکہ کے بہترین روبوٹس نے آن لائن اس کی ماں کی کمر کا آپریشن کیا۔جس سے وہ بالکل ٹھیک بھی ہو گئی۔
Copyright Disclaimer: - Under section 107 of the Copyright Act 1976, allowance is made for FAIR USE for purposes such as criticism, comment, news reporting, teaching, scholarship, and research. Fair use is a use permitted by copyright statutes that might otherwise be infringing. Non-profit, educational, or personal use tips the balance in favor of FAIR USE.